5 اکتوبر 2025 - 01:06
نیتن یاہو نے غزہ کی جنگ ختم کرنے سے مکر گیا!

صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے اپنے بیان میں، غزہ میں اپنی فوجیوں کی موجودگی میں تمام صہیونی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے لیکن جنگ ختم کرنے کے حوالے سے اظہار خیال کرنے سے اجتناب کیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صہیونی وزیر اعظم 'بنیامین نیتن یاہو' نے غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے پر حماس کے جواب کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ ریاست تمام قیدیوں کو واپس لے آئے گی اور فوج غزہ کی پٹی میں موجود رہے گی۔

نیتن یاہو، جس نے پچھلے دو سالوں میں غزہ کی پٹی میں اپنے ظالمانہ فوجی آپریشن جاری رکھتے ہوئے محض اپنی سیاسی بقا کے لئے بے شمار صہیونی قیدیوں کو اپنی ہی بمباریوں میں ہلاک کر دیا ہے، نے کہا کہ وہ کبھی بھی باقی ماندہ قیدیوں کو چھوڑ کر اپنے جنگی مقاصد کے حصول سے دستبردار نہیں ہوگا۔

اس نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ ہم آہنگی سے اس نے ایک سیاسی منظرنامہ تیار کیا جس نے اس کے دعوے کے مطابق 'غزہ کے حالات کو بدل دیا اور اسرائیل کے بجائے حماس کو تنہا کر دیا!!'

صہیونی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ سیاسی اور فوجی دباؤ نے حماس کو اپنا موقف بدلنے پر مجبور کر دیا ہے اور جنگ بندی کے لئے ان پر اندرونی اور بیرونی طور پر سخت دباؤ تھا!!

نیتن یاہو نے مزید کہا کہ وہ مذاکراتی عمل میں تاخیر کی اجازت نہیں دے گا، اور دعویٰ کیا کہ دوسرے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گا اور غزہ کی پٹی یا تو معاہدے کے ذریعے یا فوجی کارروائی سے ہتھیاروں سے پاک کر دی جائے گی۔

نیبن یاہو نے کہا: میں نے مذاکراتی ٹیم کو حکم دیا ہے کہ وہ 'ڈریمر' کی صدارت میں مصر جائیں تاکہ ٹرمپ کے منصوبے پر بات چیت کی جا سکے۔

اس سے متعلقہ، صہیونی چینل i12 نے اعلان کیا کہ نیتن یاہو نے قیدیوں کی رہائی کے بعد جنگ ختم کرنے یا اسے دوبارہ شروع نہ کرنے کی پابندی نیز غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کا کوئی وعدہ نہیں دیا۔

اسرائیلی آرمی ریڈیو کے نامہ نگار 'دورون کدوش' نے بھی کہا کہ نیتن یاہو نے اپنی آج رات کی تقریر میں معاہدے کے بارے میں خوشی فہمی کے ساتھ پرامید لہجے میں بات کی اور دعویٰ کیا کہ حماس آئندہ کچھ دنوں میں قیدیوں کو رہا کر دے گی، اور ایسا اسرائیل کے غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر انخلا بغیر ہی ہوگا۔

کدوش نے کہا: چونکہ حماس نے باقاعدہ یا غیر رسمی طور پر نیتن یاہو کی کسی بھی شرط کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے، اس لئے میرے لئے یہ سمجھنا کچھ مشکل ہے کہ معاہدے کے ناگزیر ہونے کے بارے میں نیتن یاہو کی یہ خوش فہمی کہاں سے آئی ہے۔

نیتن یاہو کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب وہ ذاتی سیاسی وجوہات اور اپنے انتہا پسند وزراء ـ بن گویر اور اسموتریچ ـ کے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے، جبکہ حماس نے گذشتہ جمعے کو غزہ کے بارے میں ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے کا جواب دیا تھا اور اس کے کچھ نکات ـ جیسے جنگ کا خاتمہ، قیدیوں کا تبادلہ، اور غزہ کی انتظامیہ کو فلسطینی ماہرین کی کمیٹی کے حوالے کرنے ـ سے اتفاق کیا تھا، جبکہ واضح کیا تھا کہ دیگر نکات ـ جیسے کہ اس پٹی کا مستقبل ـ قومی موقف اور بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک میں طے پائے گا۔

نکتہ:

یہ منصوبہ ٹرمپ کا پیش کردہ ہے اور اگر نیتن یاہو اس سے مکر رہا ہے تو اس کے مطلب یہ ہوگا کہ ٹرمپ نے ہمیشہ کی طرح پھر بھی جھوٹ بولا ہے کیونکہ اگر اس نے سچ بولا ہو تو نیتن یاہو میں انکار کرنے کی ہمت نہ ہوتی؛ اور اگر وہ اس معاملے میں استثائاً سچا ہے تو نیتن یاہو کو شاید اپنا موقف بدلنا پڑے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ٹرمپ سنجیدگی سے نوبل کا امن انعام ہتھیانے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha